ایپی کیوریت (Epicureanism)

سقراط کا طریقہ کار سوال اٹھانا تھا، سو، اس نے سوال اٹھا دیا کہ انسان اچھی زندگی کس طرح گزار سکتا ہے۔ کلبیوں اور رواقین نے اس کا حل یہ پیش کیا کہ دکھ اور تکلیف کو برداشت کیا جائے اور ہر قسم کی مادی تعیشات سے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے۔ صرف دو سال بعد ایتھنز میں ایپی کیورس نے ایک اور نقطۂ نظر پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ مطمع نظر قدغنوں سے نجات اور حواس کے ذریعے ارفعٰی ترین لذت کے حصول سے بھی حاصل کیا جا سکتا ہے۔۔۔ یہ تھا ایپی کیوریت کا بانی ایپی کیورس(Epicurus)۔ ایپی کیورس342) ق م۔ 271 ق م( ایتھنز کی نوآبادی جزیرہ ساموس میں پیدا ہوا۔ اس کی ماں ایک دنیادار، شیخی باز اور چتر عورت تھی، جو پروہتانی اور روحانی معالج ہونے کی دعویدار تھی۔ وہ گلی گلی پھیرے لگا کر پاکیزگی عطا کرنے والی دعائیں پڑھتی اور منتروں اور جادو ٹونے سے لوگوں کا علاج کرتی۔

ایپی کیورس کو اپنی ماں سے شدید محبت تھی۔ وہ بھی اپنی ماں کے ہمراہ رہتا اور ان مقدس فریب کاریوں میں اس کی مدد کرتا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اوائل ِایام ہی سے نفسیاتی طور پر اس کے دل میں صنعیف العتقادی اور اوہام پرستی کے خلاف ردعمل پیدا ہوگیا۔ بتایا جاتا ہے کہ لڑکپن ہی سے اسے فلسفے سے دلچسپی پیدا ہوگئی تھی۔ ایک روز اس وقت جب کہ اس کی عمر صرف بارہ سال تھی، اس کے استاد نے تخلیق کائنات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہر شے بدنظمی سے پیدا ہوئی ہے۔یہ ایپی کیورس کے دل کو لگنے والی بات تھی۔ اس لیے اس نے استاد کی بات سن کر کہا ’’مگر یہ تو بھی بتایئے کہ خود یہ بدنظمی کہاں سے پیدا ہوئی ہے‘‘؟ اب استاد اس سوال کا جواب کہاں سے دیتاا۔ اس نے کہا ’’ایپی کیورس! اس سوال کا جواب تو کسی کو بھی معلوم نہیں‘‘ اٹھارہ سال کی عمر میں وہ ایتھنز آیا۔

یہ شدر و فساد کے دن تھے اور ایتھنز میں اسکندر اعظم کا مقرر کردہ حاکم ایک مثالی آمر کی طرح تھا۔ ایپی کیورس کا باپ اپنی بیوی کے برعکس ایک مختلف آدمی تھا۔ وہ ایتھنز کے ایک سکول میں پڑھاتا تھا۔۔۔ایک ایسا ٹیچر جسے آمریت سے نفرت تھی، مگر شہر کے حاکم نے وہی کیا، جو کسی آمر کو کرنا چاہیے تھا۔ اس نے اس جیسے باغیانہ خیالات رکھنے والے تمام افراد کو وہاں سے نکال دیا اور مقدونیہ کے آباد کاروں کو ایتھنز لے آیا۔ سو، ایپی کیورس کے گھرانے کو ایتھنز چھوڑ کر ایشائے کوچک میں پناہ لینا پڑی۔ اب مقام عافیت ایک ہی تھا اور وہ تھا اس وقت کا سکہ رائج الوقت یعنی فلسفہ، ایپی کیورس نے فلسفے کے دامن میں پناہ لے کر زندگی کے عذاب کو بھولنا چاہا۔ اسے زندگی کے ابتدائی ایام کا سوال ابھی تک یاد تھا کہ بدنظمی کا منبع کیا ہے؟ اور اب اس میں یہ خواہش بھی شامل ہوگئی تھی کہ اس سے نجات پانے کا طریقہ کیا ہے۔ ایک مشکل زندگی گزارنے کے بعد ایک بار پھر جب وہ ایتھنز آیا تو زندگی آسان کرنے کا نسخہ اس کے ہاتھ میں تھا۔ شہر کے نواح میں اس نے ایک گھر خریدا اور ایک باغ۔311 ق م میں اس نے اپنے مکتب کی بنیاد رکھی، جس کی پیشانی پر درج تھا: ’’اجنبی! تم یہاں بہت اچھی زندگی گزارو گے۔ یہاں لذت اعلیٰ ترین اچھائی سمجھی جاتی ہے‘‘ (ظفر سپل کی کتاب’’ورثہِ دانش یونان‘‘ سے ماخوذ،ناشر: بُک ہوم،لاہور)