علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تقریر

علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ

جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے ، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے

جناب ِ صدر گرامیِ قدر اور میرے مہربان دوستو!

                آج جس قلندر کا ذکر یارانِ محفل کا موضوعِ سخن ہے جسے دنیا شاعرِ مشرق حکیم الامت اور حضرت علامہ اقبال ؒ کے نام سے جانتی ہے۔ وہ عاشقِ مصطفیٰ جس نے اردو کی تاریخ کا سب سے بڑا نعتیہ شعر کہا۔

کی محمدؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں

جنابِ والا!

                یہ وہی علامہ اقبال ؒ ہیں جنہیں ہم مصورِ پاکستان کے نام سے پکارتے ہیں۔ جو ملت ِ اسلامیہ کے نباضِ اعظم اور مفکرِ اسلام ہیں۔ علامہ اقبال اس ہستیِ باکمال کا نام ہے جنہوں نے شیخ نور محمد جیسے باخدا صوفی بزرگ کی گود میں آنکھ کھولی۔ اور شمس العماءمولوی میر حسن جیسے استاد سے عربی و فارسی اور فلسفہ و حکمت کی ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ کالج پہنچے تو سَر آرنلڈ جیسے نابغہ آپکے اساتذہ میں شامل ہوئے۔

عزیزانِ من! علامہ اقبالؒ اپنی قادر الکلامی کے بارے میں خود فرماتے ہیں۔

اقبال بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا غازی تو یہ بنا کردار کا غازی بن نہ سکا

اس شعر میں علامہ اقبال ؒ نے جس کسرِ نفسی سے کام لیا یقینا آپ کو واضح محسوس ہوا ہوگا۔ لیکن بعض مقامات پر تو علامہ اقبالؒ بالکل ہی بے باک ہوجاتے ہیں۔ایسی تڑپ کہ کسی بڑے سے بڑے جادری ، پہلوان کے دل میں بھی ایسی جرأت کبھی پیدا نہ ہو جو اقبالؒ کہہ جایا کرتے تھے۔

کانٹا وہ دے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو

یارب وہ درد جس کی کسک لازوال ہو

علامہ اقبال ؒ نے جب شکوہ لکھا تو ہمارے بہت سے علماءنے آپ پر کفر کا فتویٰ صادر کیا، لیکن علامہ اقبالؒ کی فریاد میں وہ سچائی تھی کہ ہر سننے والے کی آنکھوں سے اشکوں کی لڑیاں جاری ہوجاتیں۔ اور وہ خود عاجز آکر آخرکار یہ کہنے پر مجبور ہوجاتے۔

چپ رہ نہ سکا حضرتِ یزداں میں بھی اقبال

کرتا کوئی اس بندئہ گستاخ کا منہ بند

علامہ اقبالؒ بیسویں صدی عیسوی کے سب سے برے فلسفی ، مفکر تھے ۔

                میرے ہم عمر بچے اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے کہ علامہ اقبال ایک شاعر ہیں بس کیونکہ ہمیں بتایا ہی اتناکچھ جاتا ہے ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم یہ تک نہیں جانتے کہ اقبال ؒ شاعر بعد میں ، فلسفی پہلے تھے۔ انہوں نے فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید کی۔ انہوں نے مسلمانوں کو اجتہاد کا راستہ دکھایا ۔ انہوں نے قومِ رسولِ ہاشمی کو انکی پہچان کروائی۔

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی

جنابِ والا!سچی بات تو یہ ہے کہ ہم علامہ اقبالؒ کانام تو ہر جگہ استعمال کرتے ہیں۔ لیکن ان کے کام سے مطلقاً واقف نہیں ہیں۔

                جی ہاں جنابِ والا!علامہ اقبال ؒ ہی وہ مفکرِ اسلام ہیں جنہوں نے ملتِ اسلامیہ میں جدید علوم کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ جنہوں نے روس کے سرخ انقلاب کا کماحقہ اندازہ لگالیا تھا ۔ اور نہ صرف ہندوستان کے مسلم علاقے بلکہ پورے بھارت کو اس کی ہولناکیوں سے بروقت آگاہ کرکے ہندوستانیوں پر احسان کیا تھا ۔ یہی نہیں علامہ اقبالؒ اعلیٰ تعلیم کے لیے جب انگلستان تشریف لے گئے تو انہوں نے مسلمانوں کے اسلاف کی کتابوں کو پورپ کے کتب خانوں میں دیکھا اور خون کے آنسو روتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے۔

وہ ہیرِ علم کے موتی کتابیں اپنے آباءکی

جو دیکھیں انکو یورپ میں تو دل ہو تا ہے سیپارہ

اور پرہیز گار و متقی اس قدر تھے کہ جب مسلح پر نماز کیلیے کھڑے ہوتے تو بوجہ رِقت آپکا دامن آنسوﺅں سے تر ہوجایا کرتا تھا ۔ یہاں تک کہ خود بھی ایک جگہ فرمایا۔

زمستانی ہوا میں اگرچہ تھی شمشیر کی تیزی

نہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آدابِ سحر خیزی

والسلام

allama-iqbal